(ایجنسیز)
برسلز…بیلجیم کی پارلیمنٹ نے ایک ایسے قانون کی منظوری دیدی ہے، جس کے تحت مہلک امراض میں مبتلا بچوں کیلئے تکلیف دہ زندگی کے بجائے ان کی زندگی کا خاتمہ آسان بنایا جاسکے گا۔ قانون کی منظوری کے بعد بیلجیم دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں ناقابل علاج امراض میں مبتلا بچوں کے ساتھ ایسا تلخ رویہ اپنایا جائے گا۔ بیلجیم کیاراکین پارلیمنٹ ایک ایسی راہ پرچل پڑے ہیں جہاں ناقابل علاج مرض میں مبتلا بچوں کو بھی موت کی وادی میں دھکیلناکھیل بن سکتاہے۔متنازعہ قانون کے حق میں 86اورمخالفت میں 44ووٹ ڈالے گئے، جبکہ 12اراکین پارلیمنٹ غیرحاضررہے۔سینیٹ اسے دسمبر ہی میں منظوری کرچکی ہے اورمحض بادشاہ کے دستخط باقی ہیں۔مہم چلانے والی خاتون کہتی ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ لاعلاج مرض میں مبتلابچے، بڑے ہونے سے پہلے ہی موت کی وادی میں جاسکیں گے۔ بیلجیم کے مذہبی گروہوں اور ڈاکٹروں کے پینل
نے پارلیمنٹ سے درخواست کی تھی کہ ووٹنگ موخرکردی جائے۔مخالف مہم چلانے والے پروفیسرکہتے ہیں کہ اب دوسرے ملکوں کوخبردارہوجانا چاہئے کیونکہ قانون بن گیا توپھراس کادائرہ کسی بھی حدتک بڑھایا جاسکتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ، جرمنی اورامریکاکی بعض ریاستوں میں لوگوں کوکسی شخص کی مدد سے خودکشی کاحق حاصل ہے۔ نیدرلینڈزمیں 12 اور لکسمبرگ میں 18 برس کے بچے اس مقصدکیلئے ڈاکٹروں کی مدد بھی لے ہیں، تاہم بیلجیم میں عمرکی حد ہٹادی گئی ہے اورڈاکٹروں نے بھی تسلیم کیاہے کہ یہ فیصلہ کرناآسان کام نہیں۔ ناقابل علاج مرض میں مبتلابچے کوموت کے منہ میں دھکیلنے کیلئے یوں توڈاکٹروں، ماہرین نفسیات اوروالدین کی مرضی پوچھی جائیگی مگرسماجی ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں سے تنگ والدین کسی بھی حدتک جاسکیں گے اورایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی کہ کہ امیدکی کرن سمجھے جانی والے بچوں ہی کے بارے میں ناامیدی کوغالب کرلیاجائے۔